اک دن میں نے سانپ سے پوچھا۔
ارے کم نظر بین جوگی نے پوری بجائی نہ تھی۔
تو اپنے بل سے تڑپتے ھوئے مچلتے ھوئے رکس کرتے ھوئے۔
قید کس لیے تو خود بخود ھو گیا۔
اس پٹاری کے زندان میں کھو گیا۔
سانپ کہنے لگا۔
دنیا میں جتنے بھی دروازے ھیں۔
سب کی اک آن ھے سب کی اک شان ھے۔
سب کا اک ظرف ھے سب کی اک بات ھے۔
جتنا دروازہ ھو اتنی خیرات ھے۔
میرے پاس اتنی بھی جگہ نہیں۔
کہ لیٹ کر سو سکوں مطمئن ھو سکوں۔
میرے دن رات کیا میری اوقات کیا۔
اک دن اک سپیرا ادھر آگیا
آس لیے کے میرے اجڑے گھر آگیا۔
مجھے اپنے بل کی لاج رکھنی پڑی۔
چاہے قید کی لذت بھی چکھنی پڑی۔
اے میرے دل روبا اے میرے بےوفا۔
سانپ کی بات سن کر میں چکرا گیا۔
تیرا دروازہ مجھ کو یاد آگیا۔
No comments:
Post a Comment
Thanks for comment